09/Dec/2024
News Viewed 41 times
اسلام آباد سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مسترد کردی، کیس کی سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ اجازت دینے کا مطلب فوجی عدالتوں کا اختیار تسلیم کرنا ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلوں پر جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے، آج کی سماعت میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ ’فوج اور سویلین میں فرق مصنوعی ہے، فوجی اہلکار بھی اتنے ہی سویلینز ہیں جتنے عام شہری ہیں اور یہ کہنا غلط ہے کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، آرمی ایکٹ فوج کے ساتھ کام کرنے والی کمپنیز کے ملازمین پر بھی لاگو ہے، یا تو پھر یہ شقیں بھی کالعدم کردیں پھر کہیں سویلین کا وہاں ٹرائل نہیں ہو سکتا‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ’وہ توسویلین کی الگ قسم ہوتی ہے‘، اس پر وکیل نے جواب دیا کہ ’جی بالکل آرمی ایکٹ سویلین کی کیٹیگری کی بات ہی کرتا ہے‘، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ’آپ کا کیس آرمی ایکٹ کی اس شق میں نہیں آتا‘، دلائل کے دوران وزارت دفاع کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ’فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے اور افواج کو ڈیوٹی سے روکنے والوں کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہوگا‘۔
اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ ’کیا کور کمانڈر کا گھر بھی فوجی تنصیبات میں آتا ہے؟‘ اس پر خواجہ حارث بولے کہ ’فوجی افسران کے گھروں میں بھی حساس دستاویزات موجود ہوتی ہیں، گھر کو دفتر ڈکلئیر کر کے استعمال کیا جا سکتا ہے‘، یہ سن کر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ ’ہم روز کور کمانڈرز کو گھروں سے دفتر آتے جاتے دیکھتے ہیں، یہ بات کتنی درست ہے کہ یہ آئیڈیا بعد میں آیا کہ کور کمانڈر کا گھر بھی دفتر تھا؟‘۔