20/Mar/2019
News Viewed 1718 times
دریائے نیل کی گہرائی سے حال ہی میں ایک نایاب کشتی دریافت کی گئی جو کہ ابھی بھی بہت اچھی حالت میں موجود ہے ،سینکڑوں سال سے چلنے والی کشتیوں کے متعلق فراعین کی بحث منظرعام پر پہنچ گئی ان کے کہنے کے مطابق شاندار کشتیاں ہی فرعونی دور میں استعمال ہوتی تھی جو کے ثابت ہو چکا ہے ۔
ہیروڈوٹس جو کہ ایک یونانی مؤرخ تھا اس نے اپنی کتاب میں ان باتوں کا زکر کیا تھا ۔اس کی کتاب کا نام ’ہیسٹیریز‘تھا جو کہ 450قبل مصیح میں منظر عام پر آئی۔اس نے اپنی کتاب میں اہرام کے متعلق لکھا کہ انہیں جوڑنے کے لیے جو پتھراستعمال ہوتے ہیں ان میں بال برابر بھی فرق نہیں ہوتا اور جب دوپہر کے وقت ان پر دھوپ پڑتی ہے تو اہرام سے منعکس ہو کر ایک دلکش منظر بناتی ہے جسے دیکھ کر ہوش اڑ جاتے ہیں۔ہیروڈوٹس نے لکھا کہ اس نے بارس نامی ایک بہت بڑی کشتی دیکھی جس میں لوگ اپنے سامان کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ جایا کرتے تھے اور حال ہی میں ملنے والی کشتی سے ماہرین نے ہیروڈوٹس کے بیان کی تصدیق کی اور ثابت ہوتا ہے کہ اس نے جو بھی لکھا سب سچ ہے۔’ڈامیان رابنسن‘ جو کہ آکسفورڈسینٹر آف میری ٹائم آرکیالوجی کے ماہر ہیں ان کا کہنا ہے کہ فرعونی دور میں بڑی تجارتی کشتیاں ہوتی تھی اور حال ہی میں ملنے والی کشتی اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے اور ابھی اس کشتی کا صرف 70فیصد ڈھانچہ ہی برآمد کیا گیا ہے۔
مزید بھی پڑھیں: نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے بڑا اعلان کر دیا
’الیگزینڈربیلوو ‘ روس کے سائنسادان اور مصری علوم کے ماہر ہیں،انہوں نے سال 2013میں پیش گوئی کی کہ کشتیو ں کو یا تو اینٹوں سے بنایا جاتا تھا یا ان پر اینٹوں جیسی ساخت نمایا تھی۔ دریافت ہونے والی کشتی میں عجیب بات یہ ہے کہ اس کی اندورونی ساخت میں انسانی پسلیوں کاگمان ہوتاہے جبکہ ماہرین کے مطابق پہلے ملنے والی قدیم کشتیوں کی ایسی ساخت نہیں ،دریائے نیل سے ملنے والی اس کشتی کی لمبائی 27میٹر ہے،ماہرین نے اس کشتی کو’ شپ 17‘کا نام دیا ہے۔