13/Dec/2024
News Viewed 38 times
سپریم کورٹ کا آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں ملٹری کورٹس کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کررہا ہے جہاں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا ، انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے ، فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے ، جن ملزمان کو سزاوں میں رعایت مل سکتی ہے ، ان کو رعایت دے کر رہا کیا جائے ۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ کل بھی کہا تھا کہ 9مئی واقعات کی تفصیلات فراہم کریں، فی الحال تو ہمارے سامنے معاملہ صرف کور کمانڈر ہاؤس کا ہی ہے، کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس تک ہی رکھنا ہے تو بھی آگاہ کردیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں،تفصیلات باضابطہ طور پر متفرق درخواست کی صورت میں جمع کراؤں گا۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے مقدمہ امید ہے جنوری میں مکمل ہو جائے ، جنوری کے دوسرے ہفتے میں 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کو مقرر کریں گے ۔ہمارے پاس 26 ویں آئینی ترمیم سمیت بہت سے مقدمات پائپ لائن میں ہیں،
سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کےٹرائل کیخلاف درخواست پر دوران سماعت وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابیاں ہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ عدالتی فیصلے کو اتنا بے توقیر تو نہ کریں کہ اسے خراب کہیں،خواجہ حارث نے کہاکہ معذرت خواہ ہوں میرے الفاظ قانونی نوعیت کےنہیں تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے ہر شخص کو اس کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے؟جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ پہلے بتائیں!عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ اس نکتے پر دلائل دیں کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں،اس پہلو کو بھی مدنظر رکھیں کہ آرمی ایکٹ 1973کے آئین سےپہلے بنا تھا۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابیاں ہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ عدالتی فیصلے کو اتنا بے توقیر تو نہ کریں کہ اسے خراب کہیں،خواجہ حارث نے کہاکہ معذرت خواہ ہوں میرے الفاظ قانونی نوعیت کےنہیں تھے۔